Monday, April 18, 2011

Naya Sahitya Point




 کالی رات کا تخلیقی نوحہ

حقّانی القاسمی


ہمارے عہد کی رات میرؔ کے عہد کی رات سے زیادہ بھیانک اور دہشت ناک ہے۔ ہمارے عہد کا تخلیق کار جس بھیانک کالی رات میں قید ہے ، اس کالی رات کو وہ اِظہارات کے مختلف پیرائے میں پیش کررہا ہے ۔
آج کے عہد کی رات نے تخلیقی ذہنوں میں جس عدم تحفظ ، خوف اور دہشت کو جنم دیا ہے ، وہ خوف ہی ان کی تخلیق کا بُنیادی محور بن گیا ہے ۔ ہمارے عہد کے ہر حساس تخلیق کار کی فکری مطاف ، خوف ، دہشت اور جبریت ہے ۔ وہ جو انتظار حُسین نے کہا ہے وہ آج کی صورت ِحال پر مکمل طور پر صادِق آتا ہے ۔ آج کا تخلیق کار اِس جنجال اور دُبدا میں ہے جیسی دُبدا انتظار حُسین نے محسوس کی ہے ۔
شاعری تو ایسی بھی ہوتی ہے ، جو نعرے ہی کے زور پر چمکتی ، گرجتی ہے ۔ مگر کہانی ایسی چھوئی موئی ہے کہ نعرے کا پرچھاواں بھی پڑجائے تو مرجھا جاتی ہے ۔ پھر کہانی کیا کرے ؟ ایک طرف جنگ ہے ، دہشت گردی ہے ، بُنیاد پرستی ہے ، کلاشنکوف ہے ، ایٹمی دھماکے ہیں ، نظریات ہیں ، جن کی چھتری میں یہ سرگرمیاں اخلاقی جواز حاصل کرتی ہیں ۔ دُوسری طرف اس کے خلاف نعرے ہیں ، خطبے ہیں ، تقریریں ہیں ۔ چکی کا ایک پاٹ وہ ، دُوسرا پاٹ یہ ..... جمیعتِ خاطر کوئی صورت ہو ، کہاں ہے ؟ کہیں نہیں ۔ صحیح کہا کہ آسُودگی کا تو بس نام ہی رہ گیا ہے ۔ آسُودگی عرضیت نہ یاں ہے نہ وہاں ہے ۔ یہ تو وہی سودا ؔوالا زمانہ واپس آگیا ۔ اُس سے بھی بُرا ، نئے بٹ مار ، نئے قزّاق ، لُوٹیں ہیں دِن رات بجا کرنقّارہ نفرت کا بول بالا ، حرفِ محبت عنقا ، کلامِ نامک بے اثر ، کیسی شاعری کہاں کی کہانی ، دِل میں خس کی برابر جگہ نہ پائے ۔ کبیرؔ رویا ، سودا ؔنے زہر خند کیا ، ادھر قلم رُک گیا ۔ اب میں دُبدا میں ہُوں ۔ اِسی قسم کی دُبدا جو داستانوں ، کہانیوں میں وقتاً فوقتاً مہم جُو شہزادے کو آلیتی ہے ۔ کہ پیچھے کھائی ، آگے سمندر ، نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ، پھر کیا کیا جائے ۔ بس اچانک خواجہ خضر ؔنمودار ہوتے ہیں کہ میری اُنگلی پکڑ اور چل یا کوئی غیبی آواز آتی ہے کہ لوح کو پڑھ او راِس میں جو کچھ لکھا ہے ، اس پر عمل کر ۔ میرے پاس کون سی لوح ہے ۔ ہاں ، ہاں ہے ۔ الف لیلہ ! میرے پاس یہی لوح ہے ۔ لوح کہو ، فکشن کا اِسم اعظم کہو اور یہ اب کون سی آواز آئی جیسے سُنی ہُوئی ہو ۔ ارے ، یہ تو الف لیلہ کے وَرقوں کے بیچ سے ........ شہر زاد آواز ہے ۔ کیا کہتی ہے ، کچھ بھی نہیں کہتی ؟ نہ کوئی ہدایت ، نہ کوئی پیغام ، نہ کوئی فلسفہ ، نہ کوئی نظریہ ۔ بس کہانیاں سُنائے چلی جارہی ہے ۔ ایک کہانی ، دُوسری ، تیسری کہانی ، سلسلہ ٹوٹنے ہی میں نہیں آرہا ۔ اے وزیر زادی ! اے کہانیوں کی ملکہ ! ایسے وقت میں تمھیں کہانیوں کی سُوجھی ہے ۔ جان کی خیر مانگو ، یہ سب رات رات کا کھیل ہے ۔ صبح ہونے پر تمہاری گردن ہوگی اور جلاد کی تلوار ۔ کہانی رات کو اِسی لئے سُنائی جاتی ہے کہ وقت کٹے اور رات کٹے ۔ میں بھی ایک لمبی کالی رات کے بیچ سانس لے رہا ہُوں ۔ اِس رات کا دستہ شہر زاد کی راتوں سے ملتا ہے ۔ تو گویا اس رات کا بھی تو توڑ یہی ہے کہ کہانی کہی جائے ۔ جب تک رات چلے ، کہانی چلے ۔
ایم ۔ مبین کی کہانیاں بھی اسی رات کا توڑ ہیں اور اسی رات کی اندوہناکی کو اُنھوں نے اپنی تخلیق کی بُنیاد بنایا ہے ۔ ایم ۔ مبین جیسے تخلیق کار جو کھلی آنکھوں سے سماج اور سیاست کا منظر نامہ دیکھ رہے ہیں ، اُن کا المیہ یہی ہے کہ وہ ان سانحات اور واقعات سے اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے جو آج کل کے صنعتی شہر ی معاشرے میں رُونما ہورہے ہیں ۔ ایک حساس ذہن وقت کی دستکوں کو اپنے سینے پر محسوس کرتا ہے اور یہی دستکیں اُس کے پورے وجود میں پھیل جاتی ہیں تو وہ بے کلی اور اضطراب سا محسوس کرتا ہے اور یہی اضطراب جب تخلیق میں بدلتا ہے تو یہ اضطرابی لہریں اُن ذہنوں کو بھی اسیر کرلیتی ہیں ، جو اُنھیں محسوسات کی سطح پر دیکھتے تو ہیں، مگر اِظہاری سطح پر اپنے درد کا اِظہار کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔
ایم ۔ مبین کے افسانے آج کے عہد کا آشُوب نامہ ہیں ۔ اُنھوں نے اپنے عہد کے انتشار کو تخلیقی ہنر مندی کے ساتھ اپنے اِظہار کا لمس عطا کیا ہے ۔ اپنے عہد کی معاشرتی ، سیاسی صُورتِ حال اور انسانی ذہن اور احساس کی کیفیات کو بڑی ہی فن کاری کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کیا ہے ۔ اور یہاں اِس حقیقت کا اِظہار ضروری ہے کہ جن تخلیق کاروں نے اپنے عہد کے انتشار کو اپنی تخلیق کا محور بنایا ہے ، وہ زمانی و مکانی حدُود سے ماورا ہوگئے ہیں اور ان کی تخلیقات کو مابعد کے زمانوں میں حوالوں کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔
ایم ۔ مبین نے بھی اپنی تخلیق میں زیادہ تر اپنے عہد سے ہی سروکار رکھا ہے اور اپنے عہد کی تمام تر تصویروں کو اپنی تخلیق میں قید کرلیا ہے ۔ اُنھوں نے تجریدی طرز ِاِظہار یا علامتی اسلوب سے قاری کے لئے پیچیدگیاں پیدا نہیں کیں بلکہ صاف شفّاف بیانیہ اسلوب میں اپنے عہد کی تفہیم کی کوشش کی ہے اور اس میں قاری کی ذہنی سطحوں کا بھی خیال رکھا ہے ۔ ان کے اسلوب میں جو کھردرا پن ہے ، وہ بھی ماحول کا زائیدہ ہے ۔ ایسے پُر خطر ماحول میں انسان کی سوچ بھی کھردری ہوجاتی ہے اور زندگی کی بے کیفی اسلوب پر حاوی ہوجاتی ہے ۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے لہجے اور اسلوب میں صرف کرختگی ہے ، بلکہ یہ کرختگی افسانے کا تقاضہ ہے اور اِس کی تکمیل کے لئے یہ اسلوب ہی ناگزیر تھا۔
ایم ۔ مبین کی کہانیاں اپنے عہد کی تاریخ بھی ہیں اور اپنے عہد کا اضطراب بھی ۔ ان کے بیشتر افسانوں کا محور مذہبی خطوط پر انسانی ذہنوں کی تقسیم اور اس تقسیم سے پیدا شدہ بھیانک مسائل ہیں ۔ ایم ۔ مبین کے افسانوں میں فسادات ، جبر اور ہولناکی کی جو فضا ہے ، وہ آج کے ماحول کی دین ہے ۔ ان کے زیادہ تر افسانے Systemکے خلاف ہیں ۔ وہ سسٹم جو ساری بُرائیوں اور سارے فساد کی جڑ ہے ۔ دراصل یہی وہ نظام ہے ،جس کی وجہ سے انسان زرد کُتّا بن گیا ہے ۔
ایم ۔ مبین کے افسانوں میں سوالات ہیں ، احتجاج کی آوازیں ہیں اور یہی احتجاج آج کے افسانے کا غالب عنصر ہے ۔ افسانوں سے احتجاج غائب ہوجائے تو افسانے معنویت کھودیتے ہیں ۔ ایم ۔ مبین نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اپنے عہد کی بے زبانی کو بھی زبان عطا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دراصل خوف و دہشت میں جکڑی ہُوئی زبانیں جب سکوت اختیار کرلیتی ہیں تو مسائل اور بھی پیچیدہ ہوجاتے ہیں ۔ ایم ۔ مبین نے آج کے انسان کے کرب اور ذہنی کیفیات کے تناظر میں کہانیاں لکھی ہیں اور یہ کہانیاں انسانی رِشتوں اور تعلقات کی کہانیاں ہیں ۔ اِس میں Innerاور Outer lifeکی جھلکیاں ملتی ہیں ۔ ان کہانیوں کے کردار بالکل ویسے ہی حقیقی ہیں ، جیسے " وار اینڈ پیس ، وینٹی فےئر ، مادام بواری Tristam Shandy" کے کردار حقیقی ہیں ۔ ایم ۔ مبین کے افسانوی کرداروں کی آنکھوں سے محبت ، جنگ ، امن ، دہشت ، خوف ، فیملی لائف ، سوشل لائف کے سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ کردار راوی کے ذہن سے نکل کر قاری کے ذہن میں ہلچل اور ہیجان بپا کرتے ہیں ۔
ایم ۔ مبین کی کہانیاں صرف ایک حساس ذہن کے اِضطراب کی آئینہ دار نہیں ہے ، بلکہ ان کہانیوں میں ہمارے عہد کا اِضطراب ہے ، وہ اِضطراب جو تخلیقی ذہنوں میں شعلگی کی کیفیت پیدا کرتا ہے اور پھر یہی شعلگی جب حساس خلّاق ذہن سے عام انسانی ذہن میں منتقل ہوتی ہے تو آگ سی دہکتی ہے اور قاری اپنے وجود کو شعلوں کے حصار میں محسوس کرتا ہے ۔ شہر زاد نے اپنے عہد کے کرب کو کہانی میں پیش کیا تھا ۔ ہمارے آج کا تخلیق کار بھی اپنے عہد کے کرب کو پیش کررہا ہے ۔ ایم ۔ مبین کے افسانوں کا اِمتیاز یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے افسانے میں آج کے عہد کی سوچ ، کرب اور اس کے تمام تر زاویوں کو پیش کیاہے ۔
ایم ۔ مبین کی کہانیاں آج کی سچویشن کی شاعری ہے اور یہ شاعری اپنی تمام تر اِظہاری قوت کے ساتھ ہمارے عہد کے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہے ۔ یہ اِسی نوع کی پویٹری ہے جیسی وار اینڈ پیس وِد رِنگ ہائٹس میں اور جین آسٹن ؔکے ہاں ملتی ہے ۔


 
Copyright (c) 2010 Hindi Kahaniyan Hindi Short Storeis Edited By Ifa and Powered by Blogger.